انقرہ27جولائی(ایس او نیوز ؍آئی این ایس انڈیا)ترک صدر نے یورپی یونین پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ مہاجرین کی ترکی واپسی کے بدلے مالی معاونت سے متعلق معاہدے پر یورپی یونین نے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کی ہیں جبکہ یورپی یونین نے اس الزام کو مسترد کر دیا ہے۔یورپی کمیشن کی جانب سے ترک صدر کے حالیہ بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یورپی بلاک ترکی کے ساتھ طے پانے والی ڈیل کی شرائط پوری کر رہا ہے۔ کمیشن کے ترجمان مارگاریٹاس سنچاس کے بقول انقرہ حکومت کو شرائط کے تحت اب تک740ملین یورو ادا کیے جا چکے ہیں جبکہ اسی ماہ کے اختتام تک امدادی رقوم کی مالیت 2.1 بلین یورو تک پہنچ جائے گی۔اس کے برعکس ترک صدر ایردوآن کے مطابق معاہدے کی شرائط کے تحت اٹھائیس رکنی یورپی بلاک کو تین بلین یورو کی ادائیگی کرنی تھی تاہم اب تک صرف ایک سے دو ملین یورو ہی ادا کیے گئے ہیں۔ ترک صدر نے یہ تنقید رواں ہفتے کے آغاز پر جرمن دارالحکومت برلن میں ایک جرمن نشریاتی ادارے اے آر ڈی سے بات چیت کے دوران کی۔رواں سال مارچ میں ترکی اور یورپی یونین کے مابین طے پانے والے متنازعہ معاہدے کے تحت ترکی نے سیاسی و مالیاتی مراعات کے بدلے معاہدے کے اطلاق کے بعد یونانی جزائر پر پہنچنے والے تمام شامی مہاجرین کو واپس لینے کا کہا تھا۔ ڈیل کے تحت انقرہ کو نہ صرف اپنی سرزمین پر شامی مہاجرین کی دیکھ بھال کے لیے کئی بلین ڈالر دینے کا کہا گیا تھا بلکہ ترک شہریوں کے لیے بغیر ویزے یورپی یونین میں داخلے سے متعلق ایک عرصے سے تعطلی کی شکار ڈیل کو بھی حتمی شکل دی جانا تھی۔ تاہم پہلے ترکی میں سیاسی افراتفری اور پھر حالیہ دنوں میں وہاں ناکام فوجی بغاوت کے بعد تبدیل ہونے والے سیاسی منظر نامے کے بعد برسلز اور انقرہ کے تعلقات میں کھنچاؤ دکھائی دے رہا ہے۔
جرمن ادارے اے آر ڈی سے بات چیت کرتے ہوئے ایردوآن نے کہا کہ یورپی حکومتیں دیانت دار نہیں۔ انہوں نے کہاکہ شام اور عراق کے تقریباً تین ملین شہری ترکی میں پناہ لیے ہوئے ہیں اور ان کی دیکھ بھال کے لیے یورپی امداد کے وعدے پورے نہیں کیے گئے۔ صدر ایردوآن کے اندازے کے مطابق ترکی نے پناہ گزینوں کی ضروریات پوری کرنے پراب تک بارہ بلین ڈالر خرچ کیے ہیں۔جرمن نشریاتی ادارے کو دیے اپنے انٹرویو میں رجب طیب ایردوآن نے یہ بھی کہا کہ ترکی میں سزائے موت کی بحالی ملکی عوام کی خواہشات کے مطابق کی گئی ہے۔ انہوں نے اپنی حکومت کے اس حالیہ اقدام کاجواز پیش کرتے ہوئے کہا، ہم ایک جمہوری نظام کے تحت چل رہے ہیں جہاں عوام فیصلے کرتے ہیں۔ آج کل لوگ یہی مطالبہ کر رہے ہیں کہ سزائے موت بحال کی جائے۔ ایردوآن نے ان اقدامات کی مزید وضاحت کے لیے یہ بھی کہا کہ سزائے موت پر عملدرآمد دنیا بھر میں کئی مقامات پر جاری ہے۔ ترک صدر ان دنوں پندرہ اور سولہ جولائی کو اپنے ہاں ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کے مشتبہ ملزمان اور اس کی مبینہ حمایت کرنے والوں کے خلاف کارروائی میں مصروف ہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ ترکی نے یورپی یونین میں شمولیت کے لیے اپنے امکانات بڑھانے کی غرض سے سن2004میں سزائے موت دینابند کر دی تھی۔
بحیرۂ روم میں ہلاک ہونے والے مہاجرین کی تعداد تین ہزار سے زائد
اٹلی 27جولائی(ایس او نیوز ؍آئی این ایس انڈیا)بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت کے مطابق سال رواں کے دوران اب تک تقریباً ڈھائی لاکھ مہاجرین سیاسی پناہ کی غرض سے یورپ تک پہنچے ہیں جب کہ اس دوران بحیرہ روم میں ڈوب کر ہلاک ہونے والوں کی تعداد تین ہزار سے زائد بنتی ہے۔بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت (آئی او ایم) نے انکشاف کیا ہے کہ لیبیا کے ساحلوں پر اس ہفتے برآمدہونے والی39لاشوں کے بعد اب سن 2016 کے دوران یورپ کے سفر کے دوران بحیرہ روم میں ہلاک ہو جانے والوں کی مجموعی تعداد 3,034 ہو گئی ہے۔ ادارے کی جانب سے خبردار کیا گیا ہے کہ سال رواں کے دوران جولائی کے اختتام پر یہ تعدادگزشتہ برس اسی عرصے کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے۔ جولائی سن 2015 میں ہلاکتوں کی تعداد 1,917 تھی۔ان اعداد و شمار میں شامل ہر چار میں سے تین مہاجر شمالی افریقہ بالخصوص لیبیا سے اٹلی پہنچنے کی کوششوں کے دوران بحیرہ روم کے مقابلتاً زیادہ خطرناک راستے میں ڈوب کر ہلاک ہوئے۔ بقیہ پناہ گزینوں کی ہلاکت ترکی اور یونان کے درمیان بحیرہ ایجیئن والے روٹ پر ہوئیں۔ انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن کے ترجمان جوءِل مِلمین نے گزشتہ ہفتے ہی ایک پریس بریفنگ کے دوران بتایا تھا کہ قریب ڈھائی ہزار افراد مارچ کے اواخر سے جولائی کے دوران ہلاک ہوئے اور اس حساب سے یومیہ قریب بیس ہلاکتیں بنتی ہیں۔ مِلمین کے مطابق ان میں اکثریت افریقی ملکوں کے شہریوں کی ہے تاہم ہلاک ہونے والوں میں بنگلہ دیش، مراکش اور پاکستان کے مہاجرین بھی شامل ہیں۔بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت کے اس ترجمان کے مطابق سن 2014 میں تین ہزار افراد کی ہلاکت ستمبر تک ہوئی تھی اور گزشتہ برس اکتوبر میں جا کر کہیں ہلاکتوں کی تعداد نے تین ہزار کے ہندسے کو پار کیا اور اُس وقت ایک ملین کے لگ بھگ مہاجرین یورپ پہنچ چکے تھے تاہم سال رواں میں یہ نوبت جولائی میں ہی آ گئی ہے۔ مِلمین کے مطابق ہلاکتوں کے حساب سے یہ اب تک کا سب سے ہلاکت خیز سال ہے۔دریں اثناء سن 2016 میں اب تک 84,052 مہاجرین یورپی ریاست اٹلی پہنچ چکے ہیں جبکہ گزشتہ برس بھی اسی عرصے کے دوران اٹلی پہنچنے والے پناہ گزینوں کی تعداد لگ بھگ یہی تھی۔ یہ امر اہم ہے کہ لیبیا میں مہاجرین کو حراستی مراکز میں رکھا جاتا ہے، جنہیں عموماً جرائم پیشہ گروہ اور مقامی ملیشیا چلاتے ہیں۔